Tuesday 7 April 2015



ہاشم پورہ قتل عام : عدالت کا فیصلہ مایوس کن

راشدالاسلام

میرٹھ کے ہاشم پورہ میں1987 میں42مسلمانوں کے قتل عام کے سبھی16قصور واروں کو دہلی کی تیس ہزاری عدالت کے ذریعہ بری کردئے جانے پرہرذی شعورانسان حواس باختہ ہے۔چاہے ہندوہویامسلم ،سکھ یاعیسائی سب نے اسے عدلیہ کے نظام پر ایک سیاہ داغ سے تعبیر کیا ہے۔ ہاشم پورہ میں1987میں ایک مسجد کے باہر جمع500مسلمانوں میں سے50کو پی اے سی کے جوانوں نے ایک ٹرک میں اغوا کرکے لے گئے اور ان میں سے42کو گولی مارکرمرادنگر نہر میں پھینک دیا تھا جس میں کچھ مسلمان زندہ  بچ گئے اور انہوں نے اس واقعہ کو بیان کیا اس کے بعد معاملہ روشنی میں آیا،ایف آئی آر درج ہوئی ۔  اسی واقعہ کے ملزمین کوحالیہ چنددنوں پہلے ہماری عدالت نے باعزت بری کردیا۔جوحیرت کن اورتشویشناک بھی ہے۔ الزام یوپی حکومت پر بھی لگا کہ اس نے مقدمہ کی بہتر طور پر پیروی نہیں کی اور متاثرہ خاندانوں کے ساتھ انصاف نہیں ہوا جو ہندوستان کے سیکولر نظام پر ایک سخت حملہ ہے۔ پی اے سی کی تمام تاریخ اس قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہے اور وقت وقت پر حقوقِ انسانی کے کارکنان پی ایس سی کے طریقۂ کار میں اصلاح کا مطالبہ کرتے رہے ہیں لیکن صوبائی حکومت نے ا س سمت کبھی سنجیدگی کے ساتھ غور نہیں کیا جس کے سبب ہاشم پورا، ملیانہ اور مراد آباد جیسے قتل عام ہوئے۔عدلیہ کے حالیہ فیصلے سے ملک کے آئین کو بھی صدمہ پہنچا ہے۔ ہاشم پورہ کیس میںعدالت کے فیصلہ سے مسلمان ہی نہیں ہرمذاہب کے لوگ حیران وششدرہے کیونکہ دن دہاڑے مسلم نوجوانوں کو لائنوں میں کھڑاکرکے گولیوں سے بھون ڈالنے والے پولیس والوں کو بری کیاجاناہندوستانی عدالتی نظام کی شناخت اورحیثیت پر سوالیہ نشان لگاتاہے ۔عدالت نے ان ملزمین کو بری کرتے ہوئے جو یہ کہاہے کہ ان کے خلاف کثیر مقدارمیں ثبوت نہیں مل سکے ،اس میں بھی خاطرخواہ سچائی نہیں ہے اور استغاثہ کی جانب سے ان پولیس والوں کو مجرم ثابت کرنے والے پختہ ثبوت اور شواہد پیش کیے گئے تھے مگر انھیں نظر انداز کردیاگیااورمظلوموں کو انصاف دلانے کے بجائے ان کے زخموں کو ہراکرنے کاکام کیاگیاہے۔لیکن سوال یہ پیداہوتا ہے کہ اگر16پی ایس سی کے جوان مسلمانوں کے قاتل نہیں تھے تو42مسلمانوں کو مارنے  والے کون لوگ ہیں؟ سوال یہ بھی ہوتا ہے اگر یہ لوگ واقعی بے قصور ہیں تو پھر مجرم کون ہے؟کیا خونریزی کا یہ واقعہ پیش نہیں آیا اور اگر آیا تو کیا گولیاں خود ہی چل گئیں ؟یا خدا نخواستہ یہ 42نوجوان خود ہی مرگئے؟ اس کیس کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس ہولناک خونریزی کے لئے استغاثہ اور یوپی پولس ذمہ داری متعین کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے ۔ عدالت کا یہ کہہ دینا کہ ثبوت نہ ہونے کی بنیاد پر ملزمان کو بری کیاجاتاہے ،متأثرین کو انصاف نہیں دلاتا۔ اترپردیش حکومت کو آخر یہ توبتانا ہی پڑے گا کہ 22 مئی 1987 کوکیا مسلم نوجوانوں کا یہ قتل ہواتھا؟ اور اس کے لئے کون ذمہ دارہے ؟ ذوالفقارنامی اس شخص کا ذکرکیاجو اس ہولناک خونریزی میں گولی لگنے کے باوجود بچ گیاتھا۔انہوں نے کہاکہ میں نے یہ ہولناک منظر اپنی آنکھوں سے دیکھاتھااور مجھے بھی گولی مارکر نہر میں پھینک دیاگیا تھا۔ اس زندہ ثبوت کے باوجود عدالت اگر عدم ثبوت کی بنیاد پر ملزمان کو رہاکرتی ہے تو اسے انصاف کا خون ہی کہاجائیگا۔کیا اس بہیمانہ قتل کے کیس میں عدالتی فیصلے کے خلاف یوپی سرکار کے سامنے ہائیکورٹ جانے کیلئے کیاکوئی عذرہوسکتاہے ؟  اگر اس بہیمانہ قتل عام کے متاثرین کو اترپردیش سرکار انصاف دلانے میں ناکام رہتی ہے تو پھر اس کا مسلمانوں کی مسیحائی کرنے کا دعویٰ کھوکھلاثابت ہوگا۔ ظلم، ناانصافی، محرومی اور تعصب کی بنیادپر اگر کسی فرقے یاطبقے کو مسلسل نشانہ بنایا جاتاہے توپھر ہم یہ بات یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اس ملک میں مہذب سماج کی تعمیر کا خواب کبھی شرمندئہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔نہ صرف پی ایس سی بلکہ مکمل انتظامیہ فرقہ پرستی کا شکار ہے اورا س طرح کی فرقہ وارانہ فکر نہ صرف ہندوستانی سماج بلکہ ملک کے لئے بھی ہراعتبارسے مضر ہے۔ عدالت کے اس فیصلہ سے متاثرہ خاندان انصاف سے محروم رہ گئے جوہندوستان کے سیکولرنظام پرایک حملہ ہے۔ آزادہندوستان میںہونے والے مسلم مخالف فسادات میںپی ایس سی کاکردارہمیشہ سے مسلم مخالف رہاہے اورپی ایس سی کی تاریخ ان کے ظلم وزیادتیوںکی گواہ ہے۔کیس میں کیاہے؟ ثبوتوں کا فقدان، ناکافی شواہد یا کیس کی پیروی میں کمزوری اس فیصلہ کی جو بھی وجہ رہی ہو اس سے انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے جو متأثرین عرصہ دراز سے عدالت کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے، انہیں مایوسی کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں لگا، بلکہ انصاف سے ان کا بھروسہ اٹھ گیا ہے۔28 سال قبل میرٹھ میں پیش آئے دل دہلانے دینے والے ہاشم پورہ میں مسلمانوں کے قتل عام کے معاملہ میں تقریباً تین دہائیوں کے بعد دہلی کی تیس ہزاری کورٹ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے تمام ملزمان کی ثبوتوں کی عدم دستیابی کا فائدہ دیتے ہوئے کلین چٹ دے دی ہے۔ کیایہ عدالت کا منصفانہ عمل ہے؟بلکہ عدلیہ کے غیرمنصفانہ فیصلے سے ملک کی جمہوریت اور انصاف پسند سماج کے لئے یوم سیاہ ہے ۔ملک کے مسلمان ہندوستان کی عدلیہ پرمکمل یقین رکھتے ہیں اسلئے عدالت کے فیصلہ پرمعاملہ کی ملی رہنماؤ ں کو عدالت عظمیٰ میں جاکر مضبوط پیروی کریں۔جن لوگوں نے اپنی آنکھوں سے ہاشم پورہ قتل عام کی وردارت کو دیکھا تھا وہ آج بھی اس منظر کو بھول نہیں پائے ہیں۔ ہاشم پورہ معاملہ میں صحیح پیروی نہ ہونے کے سبب کورٹ کایہ فیصلہ آیا ہے۔ مسلم رہنماؤں اور لیڈران کو چاہئے کہ وہ انصاف کے حصول کے خاطر عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹائیں تاکہ اس اندوہناک واقعہ کے متاثرین کو انصاف مل سکے۔ 28 سال قبل 22مئی 1987 کو ہاشم پورہ میں سفاکانا قتل کاسانحہ پیش آیا اس وقت یوپی کے وزیراعلیٰ ویربہادرسنگھ تھے۔ وزیر اعلی ویر بہادر سنگھ اور مرکزی وزیر داخلہ پی چدمبرم کے اشارے پر پولیس اور انتظایہ کے ذریعہ اس درد ناک اور وحشیانہ واردات کو انجام دیا گیا تھا جس میں 42 بے گناہ لوگ مارے گئے تھے لیکن کسی بھی حکومت کے ذریعہ اس میں ملوث ایک بھی اہلکار کو نہ تو معطل کیا گیا اور نہ ہی انکی گرفتاریاں ہوئیں۔ عوامی احتجاج کے بعد معاملے کی سی بی سی آئی تحقیقات کرائی گئی جس کی رپورٹ 1994میں آئی جس میں 66پولیس اور پی ایس سی کے اہلکاروں کوقصور وارپایا گیا لیکن حکومت سے صرف 19 لوگوں کے خلاف کیس شروع کیا اس وقت صوبے میں سماجوادی پارٹی کی حکومت تھی اور ملائم سنگھ یادو اتر پردیش کے وزیر اعلی تھے ۔ پولیس کے ذریعہ ہاشم پورہ کے اجتماعی قتل عام کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کے لئے نارائن دت تیواری حکومت نے جسٹس گیان پرکاش واجپئی کی سربراہی میں ایک کمیشن بنایا تھا جس نے 1991 میں صوبائی حکومت کو اپنی رپورٹ پیش کی اسوقت صوبے کے وزیر اعلی ملائم سنگھ یادو تھے لیکن انھوں نے اس رپورٹ پر کاروائی کرنے کے بجائے اسے التوا میں ڈالنے کی نیت سے گرو شرن شریواسوا کی سربراہی میں ایک دوسرا کمیشن بنا دیا اور یہ کہا گیا کہ یہ کمیشن  اس بات کی تحقیق کرے گی کہ جسٹس گیان پرکاش واجپئی کمیشن کی رپورٹ صحیح ہے یا غلط اس طریقے سے جسٹس شریواستوا کمیشن کی رپورٹ جب حکومت کے سامنے پیش کی گئی تو ملائم سنگھ یادو مسلمانوں کے ووٹوں سے دوسری بار صوبے کے وزیر اعلی کی کرسی پر بیٹھ چکے تھے ۔اس وقت ملائم سنگھ یادو کی حکومت نے عوامی مظاہروں کے بعدبھی ان رپورٹوں کو نہ اسمبلی میں پیش کیا ،نہ تو اسے شائع کیا اور نہ ہی ان رپوٹوں میں قصوروار قرار دئے گئے لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی کی جو آج بھی ان کمیشنوں کی رپورٹیں ردی کی ٹوکری میں پڑی ہوئی ہیں ،اسکے بعد بھی جتنی حکومتیں آئیں چاہے وہ سماجوادی پارٹی کی رہی ہو بہوجن سماج پارٹی یاکسی اور کی رہی ہو کسی بھی حکومت نے ہاشم پورہ کے متاثرین کے ساتھ انصاف نہیں کیابلکہ اس واردات میں ملوث اصل قصورواروں کی پشت پناہی اور انھیں بچانے کی منصوبہ بندی میں ہی لگے رہے ، قصورواروں کو بچانے میں سماجوادی پارٹی اور اسکی حکومتوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔پیروی کرنے کے معاملے میں ریاستی حکومت ذمہ دار ہے مگر مسلم تنظیموں کے ذمہ داران میں کہیں نہ کہیں بھول ضرورہوئی ہے ۔عدالت کے حالیہ فیصلے اوردیگرمعاملے میں ہمارے سیاسی ،سماجی اورملی رہنماؤں (علماء ہوں یادانشوران)کومحاسبہ کرنا چاہئے کہ ہم سے کہاں بھول ہوئی ہے ۔کیونکہ اخباروں کے توسط معلوم ہوتا ہے کہ ہرمعاملے میںفیصلہ صادرہونے کے بعد ہمارے قاعدین اخًباروں کے زینت بنتے ہیں ۔ہاشم پورہ ناحق قتل معاملہ میں عدالت کوفیصلہ پرنظرثانی کرناچاہئے ۔ذیلی عدالت کافیصلہ حتمی فیصلہ نہیں ہے ۔ سپریم کورٹ میں اس معاملہ کی مضبوط پیروی ہونی چاہئے،تاکہ متاثرین کو انصاف اور مجرمین کوسزامل سکے۔

راشدالاسلام
سب ایڈیٹرروزنامہ عزیزالہند
rashid110002@gmail.com
رابطہ:9810863428









http://www.taasir.com/page-4-large.php

http://azizulhind.com/epaper/fullstory.php?id=11172

http://azizulhind.com/epaper/fullstory.php?id=11184

http://www.sahafat.org/mumbai/April2015/02_04_2015/p-4-1.htm

http://baseeratonline.com/2015/04/02/%DB%81%D8%A7%D8%B4%D9%85-%D9%BE%D9%88%D8%B1%DB%81-%D9%82%D8%AA%D9%84-%D8%B9%D8%A7%D9%85-%D8%B9%D8%AF%D8%A7%D9%84%D8%AA-%DA%A9%D8%A7-%D9%81%DB%8C%D8%B5%D9%84%DB%81-%D9%85%D8%A7%DB%8C%D9%88%D8%B3/

Friday 2 January 2015

  دہشت گردوں کے خاتمہ کیلئے تمام ممالک کو متحد ہونے کی ضرورت
راشدالاسلام محمداسحاق
سب ایڈیٹر''روزنامہ عزیزالہند'' نوئیڈا،انڈیا

15دسمبر2014بروزپیر دنیا نے دہشت گردی کے جس ظالمانہ چہرے کو سڈنی میں دیکھا اسی طرح کا دل دہلادینے والا واقعہ منگل 16دسمبر2014کو پاکستان کے شہرپشاورمیں آرمی اسکول میں پیش آیا جس پر آج پوری دنیا لعنت وملامت کر رہی ہے اور اس کی جتنی بھی ملامت کی جائے وہ کم ہے کیونکہ ظالموں نے بچوں کو جس بے دردی سے اپنا نشانہ بنایا اس کی مثال تاریخ میں ملنی مشکل ہے ۔ ایسے شرپسند عناصر نہ تو ہندو نہ مسلمان ہو سکتے ہیں بلکہ وہ انسانیت کا دشمن ہے۔پاکستان کے پشاور شہر میں دہشت گردوں نے آرمی اسکول پر حملہ کرکے جس طرح سے معصوم بچوں کو اپنا نشانہ بنایا ہے، اس سے دنیا ہل گئی ہے۔ اس المناک سانحہ نے ہرذی شعورسوچ وفکر رکھنے والے انسان کے ضمیر کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے اور آج پوری دنیا اور تمام انسانی برادری امن مخالف اور انسانیت دشمن عسکریت پسندوں کی اس شرمناک حرکت کے سبب مغموم ورنجیدہ ہے۔حالیہ برسوں میں اتنابڑا دہشت گردانہ حملہ دیکھا نہیں گیا۔پہلے بھی ایسی دہشت گردی کی وارداتیں ہوئی ہیں،لیکن جس طرح بغیر کسی خوف کے اس بار معصوم اور بے گناہ بچوں کو نشانہ بنایاجوہرذی شعورکیلئے لمحہ فکریہ ہے۔کچھ سال پہلے روس میں ضرور ایسے دہشت گردانہ واقعہ رونما ہوئے تھے جس میں چیچن دہشت گردوں نے ایک اسکول کو نشانہ بنایا تھا۔بہرحال پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں واقع آرمی پبلک اسکول پر طالبان شدت پسندوں کے حملے میں کم از کم 120 بچوں سمیت 132 افرادجاں بحق ہوگئے ہیں۔تحریک طالبان پاکستان کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی شمالی وزیرستان میں جاری فوجی آپریشن ضربِ عضب اور خیبر ایجنسی میں جاری آپریشن خیبر ون کے جواب میں ہے۔ منگل کی صبح ورسک روڈ پر واقع آرمی پبلک اسکول میں پیش آیا جب ایف سی کی وردی میں ملبوس آٹھ سے دس مسلح دہشت گردوں نے اسکول کی عمارت میں داخل ہو کر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔بہرحال تفتیش کے بعد ہی ٹھیک سے پتہ چل سکے گا کہ اس حملے کے پیچھے کی اصل سازش کیا تھی اور حملہ آور کہاں سے آئے تھے۔
 اسلام دنیامیں امن کے قیام ہی کے لئے آیاہے یہی وجہ ہے کہ نبی کو تلواردے کرمبعوث نہیں کیاگیابلکہ تمام جہانوں کے لئے رحمت بناکربھیجاگیاتھا۔ اس کا ثبوط ہمیں اللہ کے کلام قرآن مجید سے بھی ملتا ہے ۔(وَمَاأرسلناک الارحمةً للعالمین)(الأنبیائ:107)۔ آج کی دنیامیں دہشت گردی کسی ایک ملک یاکسی ایک قوم کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ عالمی مسئلہ بن چکاہے اوراس کے مقابلے کے لئے عالمی اتحادوقت کی پکارہے۔ دوسری بات یہ کہ اس سلسلے میں تعصب وتنگ نظری کوچھوڑکرکسی ایک خاص قوم کواس کا قصوروارٹھہرانا بندکرنا ہوگاورنہ قیام امن کا خواب کبھی بھی اورکسی بھی حال میں پورانہیں ہوگا۔دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے پوری دنیاکو ایک پلیٹ فارم پر آنا ہوگا۔انسانیت کا قتل عام ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے ۔طالبانی اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں لیکن ان کی ظالمانہ کاروائی کو دیکھتے ہوئے انہیں مسلمان تو کیا انسان بھی نہیں کہا جا سکتا ہے۔ تعلیمی ادارے میں جس طرح سے دہشت گردوں نے سفاکی کے ساتھ طلباء پر مظالم ڈھائے ہیں اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔دہشت گردوں نے بچوں پر حملہ کرکے انسانیت پر ظلم کی تمام حدود کو پار کر لیاہے۔پاکستان میں برسوں سے کھلے عام دہشت گردی کا مظاہرہ ہو رہا ہے لیکن حکومت کی سست روی اور لاپروائی کی وجہ سے اب تک وہاں سے مکمل دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہو سکا ہے۔حکومت کو چاہئے کہ دہشت گردی میں کوئی بھی ملوث ہو ان کے خلاف سخت کاروائی ہو،تبھی دنیا کو تخریب کاروں سے پاک کیا جا سکتا ہے۔جس طرح سے معصوموں کی جانوں سے کھیلاگیا ہے یہ دہشت گردی کی انتہاء ہے ،ایسے افراد کبھی بھی مسلمان نہیں ہو سکتے ہیں۔او ر ان کا انسانیت سے بھی کوئی تعلق نہیںہو سکتا۔ پوری دنیا میں انسانیت پر ظلم وزیادتی ہے ۔ اسلام ایسا مذہب ہے جس میں  دہشت گردی اور انتہا پسندی کی کوئی گنجائش نہیں ہے کچھ شرپسند عناصر اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلام کو بدنام کر نے میں لگے ہیں ایسی طاقت کو نیست ونانود کرنے کیلئے تمام ممالک کے سربراہان کو ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونے کی ضرورت ہے دہشت گردی کہیں بھی ہو وہ اسلام کے خلاف ہے۔
 پاکستانی حکمراںدہشت گردی پرقابوپانے میںبری طرح ناکام ہیںجس کانتیجہ یہ ہے کہ آج پاکستان کا آرمی اسکول معصوموںکے خون سے رنگ گیا۔ ہمیں یاد ہے آج سے چند سال قبل بھی دہشت گردی کا ایسا ہی نگا ناچ اسوقت  ناچا گیا تھا جب سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پاکستان میں سریز کھیلنے کیلئے موجود تھی اور وہ اپنے ہوٹل سے پریکٹس کیلئے میدان میں جا رہی تھی تب دہشت گردوں نے سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر سامنے سے اندھا دھن گولیاں برسائی تھی مگر اللہ کو اچھا کرنا تھا کہ اس گولی سے کسی کھلاڑی کی موت نہیں ہوئی اور ہربار کی طرح اس وقت بھی دہشت گرد فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا لیکن اب تک کوئی بھی ٹیم دہشت گردی کی وجہ سے پاکستاٹ میں کرکٹ کھیلنے کو تیار نہیں ہوتی ہے۔ جس کا نقصان پاکستان کرکٹ بورڈ اور ٹیم دونوں کو ہوتا ہے مگر اس کے باوجود پاکستانی حکومت دہشت گردو کو ختم کرنے میں اب تک ناکام ہے۔ 
 معصوم بچوںکاقتل عام انسانیت پربدنماداغ ہے۔ تعلیمی اداروںمیںپڑھنے والے بچے کسی بھی ملک کامستقبل ہوتے ہیں اورآنے والے وقت میںملک کی ذمہ داری ان کے کاندھوںپرہوتی ہے۔ اس طرح کے خون خرابے سے دہشت گردوںنے نئی نسلوںکوہی نقصان نہیںپہنچایابلکہ ملک کے مستقبل کوسیاہ کردیاہے۔ اس طرح کی ظالمانہ کارروائیوں کے رونما ہونے پر سبھی حضرات مسلمانوں کے خلاف بولنا شروع کردیتے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ دنیا میں جتنا بھی ظلم وجبرہورہاہے اس کے لئے مسلمان ہی ذمہ داری ہیں،جب کہ اسلام ظلم اوردہشت گردی کی کھل کر مخالفت کرتا ہے۔معاشی خوشحالی ،صحت اورایجوکیشن یہ تین ایسی بنیادی ضررویات ہیں جن کے بغیرکوئی بھی فرداورکوئی بھی ملک اورمعاشرہ ترقی یافتہ نہیں کہلاسکتا۔انہیں میں سے ایک امن وسکون اورچین وشانتی ہے ۔یعنی ہرطرح کے عروج وارتقاء کے لئے پرامن ماحول کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی ضرورت زندگی کے لئے سانس کی ہے۔جواس پوری دنیااوراقوام امن وامان سے محروم ہیں۔یہی وجہ ہے کہ دین اسلام نے عالمی امن عامہ قائم کرنے کی اپنے وجودمیں آنے کے روزاول ہی سے کوشش کی ہے۔کہیں''من قتل نفساً بغیرنفس أوفسادفی الأرض فکأنماقتل الناس جمیعاومن أحیاھافکأنماأحیاالناس جمیعا(المائدہ:32) کے اعلان کے ذریعہ انسانی خون کی کرامت وبزرگی کوواضح کیاتوکہیں''ولاتقتلواالنفس التی حرم اللّٰہ الابالحق ومن قُتِلَ مظلوما فقدجعلنالولیہ سلطاناً فلایسرف فی القتل انہ کان منصوراً'' (الاسرائ:33)کے ارشادکے ذریعہ یہ بتانے کی کوشش کی کہ انتقام لینا جائزتوہے لیکن معاف کردینا ہی افضل واولیٰ ہے۔اسی طرح''وکتبنا علیھم فیھاأن النفس بالنفس والعین بالعین........(المائدہ:45)جیسی آیات کے ذریعہ فسادوخوں ریزی بلکہ راہ امن کی تمام رکاوٹوں کودورکرکے امن وامان کاراستہ صاف کرنے کے ہرطرح کے جتن کئے ہیں۔
16دسمبرپاکستان کے لئے ہی نہیںبلکہ ملتِ اسلامیہ کیلئے رسوائی کا سبب اور پوری انسانیت کیلئے غم واندوہ کا دن ہے یہ حملہ اگرچہ بظاہر پاکستان کا داخلی معاملہ ہے لیکن درحقیقت یہ انسانیت سوز عمل پوری انسانیت کے خلاف حملہ ہے۔ اسلام کسی ایک بے گناہ فرد کے قتل کو بھی پوری انسانیت کے قتل کے مترادف مانتا ہے، خاص طور سے عورتوں، بچوں اور بوڑھوں پر تو اسلام حالت جنگ میں بھی ہاتھ اٹھانے کا شدید مخالف ہے ایسے میں یہ حملہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں یہ انتہائی قابل مذمت اور شرمناک ترین گھناؤنا فعل ہے۔ ایسی ناپاک حرکت خواہ کسی بھی نام سے اور کسی بھی مقصد کیلئے انجام دی جائے یہ سراسر غیر اسلامی غیر انسانی اور وحشیانہ عمل ہے جس کو اسلام سے جوڑنا یا مسلمانوں کا عمل سمجھنا سراسر غلط ہے، یہ خالص دہشت گردانہ عمل ہے ۔ مذہب اسلام دہشت گردی اور معصوموں کا خون بہانے کی اجازت نہیں دیتا۔ ایسا کرنے والے خواہ کوئی بھی ہوں مسلمان نہیں ہوسکتے، بلکہ یہ درندے تو انسان کہلانے کے بھی حقدار نہیں۔آئیے ہم سب مل جل کرایک ایسی دنیاتعمیرکریں جہاں امن کی گنگااورسکون کی جمناہے،جہاں دہشت گردی کانام ونشان نہ ہو،جہاں حقوق انسانی تلف نہ کئے جاتے ہوں اورجہاں عالمی اخوت وبھائی چارہ کے نغمے گنگنائے جاتے ہوں۔کیاآپ تیارہیں؟

راشدالاسلام محمداسحاق 
سب ایڈیٹر''روزنامہ عزیزالہند'' نوئیڈا،انڈیا
رابطہ:9810863428










  دہشت گردوں کے خاتمہ کیلئے تمام ممالک کو متحد ہونے کی ضرورت
راشدالاسلام محمداسحاق
سب ایڈیٹر''روزنامہ عزیزالہند'' نوئیڈا،انڈیا

15دسمبر2014بروزپیر دنیا نے دہشت گردی کے جس ظالمانہ چہرے کو سڈنی میں دیکھا اسی طرح کا دل دہلادینے والا واقعہ منگل 16دسمبر2014کو پاکستان کے شہرپشاورمیں آرمی اسکول میں پیش آیا جس پر آج پوری دنیا لعنت وملامت کر رہی ہے اور اس کی جتنی بھی ملامت کی جائے وہ کم ہے کیونکہ ظالموں نے بچوں کو جس بے دردی سے اپنا نشانہ بنایا اس کی مثال تاریخ میں ملنی مشکل ہے ۔ ایسے شرپسند عناصر نہ تو ہندو نہ مسلمان ہو سکتے ہیں بلکہ وہ انسانیت کا دشمن ہے۔پاکستان کے پشاور شہر میں دہشت گردوں نے آرمی اسکول پر حملہ کرکے جس طرح سے معصوم بچوں کو اپنا نشانہ بنایا ہے، اس سے دنیا ہل گئی ہے۔ اس المناک سانحہ نے ہرذی شعورسوچ وفکر رکھنے والے انسان کے ضمیر کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے اور آج پوری دنیا اور تمام انسانی برادری امن مخالف اور انسانیت دشمن عسکریت پسندوں کی اس شرمناک حرکت کے سبب مغموم ورنجیدہ ہے۔حالیہ برسوں میں اتنابڑا دہشت گردانہ حملہ دیکھا نہیں گیا۔پہلے بھی ایسی دہشت گردی کی وارداتیں ہوئی ہیں،لیکن جس طرح بغیر کسی خوف کے اس بار معصوم اور بے گناہ بچوں کو نشانہ بنایاجوہرذی شعورکیلئے لمحہ فکریہ ہے۔کچھ سال پہلے روس میں ضرور ایسے دہشت گردانہ واقعہ رونما ہوئے تھے جس میں چیچن دہشت گردوں نے ایک اسکول کو نشانہ بنایا تھا۔بہرحال پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں واقع آرمی پبلک اسکول پر طالبان شدت پسندوں کے حملے میں کم از کم 120 بچوں سمیت 132 افرادجاں بحق ہوگئے ہیں۔تحریک طالبان پاکستان کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی شمالی وزیرستان میں جاری فوجی آپریشن ضربِ عضب اور خیبر ایجنسی میں جاری آپریشن خیبر ون کے جواب میں ہے۔ منگل کی صبح ورسک روڈ پر واقع آرمی پبلک اسکول میں پیش آیا جب ایف سی کی وردی میں ملبوس آٹھ سے دس مسلح دہشت گردوں نے اسکول کی عمارت میں داخل ہو کر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔بہرحال تفتیش کے بعد ہی ٹھیک سے پتہ چل سکے گا کہ اس حملے کے پیچھے کی اصل سازش کیا تھی اور حملہ آور کہاں سے آئے تھے۔
 اسلام دنیامیں امن کے قیام ہی کے لئے آیاہے یہی وجہ ہے کہ نبی کو تلواردے کرمبعوث نہیں کیاگیابلکہ تمام جہانوں کے لئے رحمت بناکربھیجاگیاتھا۔ اس کا ثبوط ہمیں اللہ کے کلام قرآن مجید سے بھی ملتا ہے ۔(وَمَاأرسلناک الارحمةً للعالمین)(الأنبیائ:107)۔ آج کی دنیامیں دہشت گردی کسی ایک ملک یاکسی ایک قوم کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ عالمی مسئلہ بن چکاہے اوراس کے مقابلے کے لئے عالمی اتحادوقت کی پکارہے۔ دوسری بات یہ کہ اس سلسلے میں تعصب وتنگ نظری کوچھوڑکرکسی ایک خاص قوم کواس کا قصوروارٹھہرانا بندکرنا ہوگاورنہ قیام امن کا خواب کبھی بھی اورکسی بھی حال میں پورانہیں ہوگا۔دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے پوری دنیاکو ایک پلیٹ فارم پر آنا ہوگا۔انسانیت کا قتل عام ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے ۔طالبانی اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں لیکن ان کی ظالمانہ کاروائی کو دیکھتے ہوئے انہیں مسلمان تو کیا انسان بھی نہیں کہا جا سکتا ہے۔ تعلیمی ادارے میں جس طرح سے دہشت گردوں نے سفاکی کے ساتھ طلباء پر مظالم ڈھائے ہیں اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔دہشت گردوں نے بچوں پر حملہ کرکے انسانیت پر ظلم کی تمام حدود کو پار کر لیاہے۔پاکستان میں برسوں سے کھلے عام دہشت گردی کا مظاہرہ ہو رہا ہے لیکن حکومت کی سست روی اور لاپروائی کی وجہ سے اب تک وہاں سے مکمل دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہو سکا ہے۔حکومت کو چاہئے کہ دہشت گردی میں کوئی بھی ملوث ہو ان کے خلاف سخت کاروائی ہو،تبھی دنیا کو تخریب کاروں سے پاک کیا جا سکتا ہے۔جس طرح سے معصوموں کی جانوں سے کھیلاگیا ہے یہ دہشت گردی کی انتہاء ہے ،ایسے افراد کبھی بھی مسلمان نہیں ہو سکتے ہیں۔او ر ان کا انسانیت سے بھی کوئی تعلق نہیںہو سکتا۔ پوری دنیا میں انسانیت پر ظلم وزیادتی ہے ۔ اسلام ایسا مذہب ہے جس میں  دہشت گردی اور انتہا پسندی کی کوئی گنجائش نہیں ہے کچھ شرپسند عناصر اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلام کو بدنام کر نے میں لگے ہیں ایسی طاقت کو نیست ونانود کرنے کیلئے تمام ممالک کے سربراہان کو ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونے کی ضرورت ہے دہشت گردی کہیں بھی ہو وہ اسلام کے خلاف ہے۔
 پاکستانی حکمراںدہشت گردی پرقابوپانے میںبری طرح ناکام ہیںجس کانتیجہ یہ ہے کہ آج پاکستان کا آرمی اسکول معصوموںکے خون سے رنگ گیا۔ ہمیں یاد ہے آج سے چند سال قبل بھی دہشت گردی کا ایسا ہی نگا ناچ اسوقت  ناچا گیا تھا جب سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پاکستان میں سریز کھیلنے کیلئے موجود تھی اور وہ اپنے ہوٹل سے پریکٹس کیلئے میدان میں جا رہی تھی تب دہشت گردوں نے سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر سامنے سے اندھا دھن گولیاں برسائی تھی مگر اللہ کو اچھا کرنا تھا کہ اس گولی سے کسی کھلاڑی کی موت نہیں ہوئی اور ہربار کی طرح اس وقت بھی دہشت گرد فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا لیکن اب تک کوئی بھی ٹیم دہشت گردی کی وجہ سے پاکستاٹ میں کرکٹ کھیلنے کو تیار نہیں ہوتی ہے۔ جس کا نقصان پاکستان کرکٹ بورڈ اور ٹیم دونوں کو ہوتا ہے مگر اس کے باوجود پاکستانی حکومت دہشت گردو کو ختم کرنے میں اب تک ناکام ہے۔
 معصوم بچوںکاقتل عام انسانیت پربدنماداغ ہے۔ تعلیمی اداروںمیںپڑھنے والے بچے کسی بھی ملک کامستقبل ہوتے ہیں اورآنے والے وقت میںملک کی ذمہ داری ان کے کاندھوںپرہوتی ہے۔ اس طرح کے خون خرابے سے دہشت گردوںنے نئی نسلوںکوہی نقصان نہیںپہنچایابلکہ ملک کے مستقبل کوسیاہ کردیاہے۔ اس طرح کی ظالمانہ کارروائیوں کے رونما ہونے پر سبھی حضرات مسلمانوں کے خلاف بولنا شروع کردیتے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ دنیا میں جتنا بھی ظلم وجبرہورہاہے اس کے لئے مسلمان ہی ذمہ داری ہیں،جب کہ اسلام ظلم اوردہشت گردی کی کھل کر مخالفت کرتا ہے۔معاشی خوشحالی ،صحت اورایجوکیشن یہ تین ایسی بنیادی ضررویات ہیں جن کے بغیرکوئی بھی فرداورکوئی بھی ملک اورمعاشرہ ترقی یافتہ نہیں کہلاسکتا۔انہیں میں سے ایک امن وسکون اورچین وشانتی ہے ۔یعنی ہرطرح کے عروج وارتقاء کے لئے پرامن ماحول کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی ضرورت زندگی کے لئے سانس کی ہے۔جواس پوری دنیااوراقوام امن وامان سے محروم ہیں۔یہی وجہ ہے کہ دین اسلام نے عالمی امن عامہ قائم کرنے کی اپنے وجودمیں آنے کے روزاول ہی سے کوشش کی ہے۔کہیں''من قتل نفساً بغیرنفس أوفسادفی الأرض فکأنماقتل الناس جمیعاومن أحیاھافکأنماأحیاالناس جمیعا(المائدہ:32) کے اعلان کے ذریعہ انسانی خون کی کرامت وبزرگی کوواضح کیاتوکہیں''ولاتقتلواالنفس التی حرم اللّٰہ الابالحق ومن قُتِلَ مظلوما فقدجعلنالولیہ سلطاناً فلایسرف فی القتل انہ کان منصوراً'' (الاسرائ:33)کے ارشادکے ذریعہ یہ بتانے کی کوشش کی کہ انتقام لینا جائزتوہے لیکن معاف کردینا ہی افضل واولیٰ ہے۔اسی طرح''وکتبنا علیھم فیھاأن النفس بالنفس والعین بالعین........(المائدہ:45)جیسی آیات کے ذریعہ فسادوخوں ریزی بلکہ راہ امن کی تمام رکاوٹوں کودورکرکے امن وامان کاراستہ صاف کرنے کے ہرطرح کے جتن کئے ہیں۔
16دسمبرپاکستان کے لئے ہی نہیںبلکہ ملتِ اسلامیہ کیلئے رسوائی کا سبب اور پوری انسانیت کیلئے غم واندوہ کا دن ہے یہ حملہ اگرچہ بظاہر پاکستان کا داخلی معاملہ ہے لیکن درحقیقت یہ انسانیت سوز عمل پوری انسانیت کے خلاف حملہ ہے۔ اسلام کسی ایک بے گناہ فرد کے قتل کو بھی پوری انسانیت کے قتل کے مترادف مانتا ہے، خاص طور سے عورتوں، بچوں اور بوڑھوں پر تو اسلام حالت جنگ میں بھی ہاتھ اٹھانے کا شدید مخالف ہے ایسے میں یہ حملہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں یہ انتہائی قابل مذمت اور شرمناک ترین گھناؤنا فعل ہے۔ ایسی ناپاک حرکت خواہ کسی بھی نام سے اور کسی بھی مقصد کیلئے انجام دی جائے یہ سراسر غیر اسلامی غیر انسانی اور وحشیانہ عمل ہے جس کو اسلام سے جوڑنا یا مسلمانوں کا عمل سمجھنا سراسر غلط ہے، یہ خالص دہشت گردانہ عمل ہے ۔ مذہب اسلام دہشت گردی اور معصوموں کا خون بہانے کی اجازت نہیں دیتا۔ ایسا کرنے والے خواہ کوئی بھی ہوں مسلمان نہیں ہوسکتے، بلکہ یہ درندے تو انسان کہلانے کے بھی حقدار نہیں۔آئیے ہم سب مل جل کرایک ایسی دنیاتعمیرکریں جہاں امن کی گنگااورسکون کی جمناہے،جہاں دہشت گردی کانام ونشان نہ ہو،جہاں حقوق انسانی تلف نہ کئے جاتے ہوں اورجہاں عالمی اخوت وبھائی چارہ کے نغمے گنگنائے جاتے ہوں۔کیاآپ تیارہیں؟

راشدالاسلام محمداسحاق
سب ایڈیٹر''روزنامہ عزیزالہند'' نوئیڈا،انڈیا
رابطہ:9810863428

http://hamarasamajdaily.com/newspaper-view.php?newsid=3106&date=2014-12-23
http://akhbarurdu.com/hind_news/page_02_b.html
http://www.akhbarurdu.com/srinagarnews/index.html
http://www.akhbarurdu.com/akhbar_e_mashriq_delhi/delhi_07_b.html
http://www.akhbarurdu.com/sahil_online/index.html
http://akhbarurdu.com/sangam/page_06_b.html
http://akhbarurdu.com/sangam/page_06.html
http://akhbarurdu.com/milap/index.html
http://epaper.azizulhind.com/fullstory.php?id=9352
http://akhbarurdu.com/safa_times/page_03.html
http://www.mataeakhirat.in/ImageUpload/Kanpur_24-December-2014_5.jpg
http://akhbarurdu.com/qaumitanzeem/index.html
http://www.akhbarurdu.com/kaumi-e-mail/page_02_b.html