Sunday 28 September 2014

Article on Sakshi Maharaj By Rashid ul Islam

link
http://www.akhbarurdu.com/farooquitanzeem/page_06_b.html

http://www.akhbarurdu.com/mataeakhirat/index.html

http://www.akhbarurdu.com/hamara_maqsad/page_02_b.html

http://baseeratonline.com/2014/09/25/%D8%B3%D8%A7%DA%A9%D8%B4%DB%8C-%D9%85%DB%81%D8%A7%D8%B1%D8%A7%D8%AC-%D8%AC%DB%8C%D8%B3%DB%92-%D9%84%DB%8C%DA%88%D8%B1%D8%A7%D9%86-%D8%B3%DB%92-%DA%86%D9%86%D8%AF%D8%B3%D9%88%D8%A7%D9%84/









http://www.akhbarurdu.com/farooquitanzeem/page_06_b.html
http://www.akhbarurdu.com/mataeakhirat/index.html
http://www.akhbarurdu.com/hamara_maqsad/page_02_b.html
http://baseeratonline.com/2014/09/25/%D8%B3%D8%A7%DA%A9%D8%B4%DB%8C-%D9%85%DB%81%D8%A7%D8%B1%D8%A7%D8%AC-%D8%AC%DB%8C%D8%B3%DB%92-%D9%84%DB%8C%DA%88%D8%B1%D8%A7%D9%86-%D8%B3%DB%92-%DA%86%D9%86%D8%AF%D8%B3%D9%88%D8%A7%D9%84/

Friday 26 September 2014

 





ساکشی مہاراج جیسے لیڈران سے چندسوال
راشدالاسلام مظاہری(ارریہ)
سب ایڈیٹرروزنامہ عزیزالہند۔نوئیڈا

ہندوستان کی آزادی کی پہلی تحریک دینی مدارس سے اٹھی ہے اوریہ بات کسی سے مخفی نہیں۔ گزشتہ دنوں شاکشی مہاراج نے اپنے بھڑکائوبھاشن میں دینی مدارس کودہشت گردی کے اڈے بتاتے ہوئے ملک کی سب سے بڑی اقلیت کونشانہ بنایاتھا۔ بی جے پی کے ممبر آف پارلیمنٹ ساکشی مہاراج کے ذریعہ مدارس اسلامیہ کے خلاف زہر افشانی کئے جانے پر عام مسلمانوں سمیت علماء میںتا حال شدید غم وغصہ پایا جارہاہے۔ مدارس اسلامیہ میں ہمیشہ حب الوطنی کا درس دیا جاتاہے یہی وجہ ہے کہ جنگ آزادی میں مدارس نے اہم رول ادا کیا تھا اور اسی چیز سے گھبرا کر انگریزوں نے صرف دہلی کے اندر ایک ہزار سے زائد مدرسوںکو منہدم کیا تھا لیکن پھر بھی ان مدارس والوں کا حوصلہ نہیں توڑ سکے تھے اور آخرکار انگریزوں کو یہاں سے بھاگنا پڑاتھا۔لیکن یہ جان کر بڑا افسوس ہوتا ہے کہ آج بھی انگریز جیسی ذہنیت کے لوگ ہندوستان میں موجود ہیں اور مدارس کو بدنام کرنے کی سازش کر رہے ہیں۔ بعض فرقہ پرست لوگ ہندوستان میں بدامنی پھیلانا چاہتے ہیں ہندو مسلم اتحاد کو پارہ پارہ کرنا چاہتے ہیں اسی لئے پہلے لوجہاد اور اب مدارس کے خلاف بیان دے کر اپنی گندی ذہنیت کا اظہار کر رہے ہیں ۔
بہرکیف ساکشی مہاراج جیسے فرقہ پرست لیڈران سے چندسوالات پیش خدمت ہیں اوروہ یہ ہے کہ مہاتماگاندھی کوقتل کرنا،1984میں سکھوں کادہلی کے سڑکوں پراورپنجاب میںقتل کیاجانا ، 1963ء میں گجرات کی زمین پر قرآنی نسخوں کو بے حرمتی کرنا،1964ء میں سات مرتبہ فساد پھیلاکر وہاں کے مسلمانوں کے زندگی سے کھلواڑواجارکرنا ،1979ء میں جمشید پوری مسلمانوں کے سولہ پختہ مکانوں کو نذرآتش کرنا ،1980ء میں مرادآباد کی عیدگاہوں میں نہتے مسلم نوجوانوں کے خون سے ہولی کھیلنا،1985ء اور1986ء میں علی گڑھ کی ماؤں اوربہنوں کی عصمتوں کوتارتار کرنا ،1987ء میں ملیانہ کے مسلم گھرانوں کے خونوں سے ہولی اوررنگ ریلیاں منانا ،1989ء میں بھاگلپوری بھائی اوربہنوں کا قتل عام ،1992ء میں بے لگام کارسیکوں کے ذریعے مسلمانوں کی عظمت کی نشان چارسو سالہ پرانی بابری مسجد کوشہید کردیاگیا ، قرآن کریم کونذرآتش اوراس کے خلاف احتجاج کرنے پر کانپوری مسلمانوں کو گولیوں سے بھون ڈالنا،اورمارچ 2002ء میں ہزاروں گجراتی ماؤں اور بہنوں کواپنی ہوش کا نشانہ بناکرموت کے گھاٹ اتاردینا،اوریہ تمام بلیک کارنامے آر ایس ایس ،بے جے پی کے تربیت یافتہ کارکنان اورفرقہ پرست لیڈران کے سیاہ کارنامے ہیں۔اسی طرح حیدرآباد کے مکہ مسجد میں بم بلاسٹ 2005میں مالیگاؤں میں بم باری کرنا ،اوراجمیر شریف کے درگاہ پر بم بلاسٹ میں مدارس کے تربیت یافتہ ہیں ۔نہیں ہرگزنہیں ،ہرگزنہیں بلکہ آرایس ایس اوراس کے ذیلی تنظیموں کے ذمہ داران اوراس کے کارندے ہیں۔مسلمانوں کی بدقسمتی کہئے کہ یہ سازشی تحریک مسلسل ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور47ملکوں میں تقریباً اس کی ذیلی تنظمیں مختلف ناموں سے سرگرم ہیں خود ہندوستان میں ان کے بہت سارے تنظیمیں قائم ودائم ہیں جس میں بجرنگ دل ،وشوہندوپریشد ،شیوسینا اوربی جے پی کونمایا مقام حاصل ہے۔
آج اس ملک کوپوری دنیامیں جوعزت اورنیک نامی ملی ہوئی ہے وہ بھی دینی مدارس کی وجہ سے ہے،ہندوستان کے ایک ارب سے زائدلوگ امن وچین کاجوسانس لے رہے ہیں وہ بھی دینی مدارس کی وجہ سے ہے۔سچائی یہ ہے کہ یہ دینی مدارس اورعلماء نہ ہوتے توہندوستان کوآزادی نہ ملتی ،یہ ایک ایسی سچائی ہے جس کوہرعقل منداورصاحب بصیرت بحوبی جانتاہے۔شاکشی مہاراج جیسے لیڈران کوکیامعلوم کہ مسلمانوں نے اس ملک کوآزادی دلانے میں کیاکرداراداکیاہے،انھیں توہندوستان کی صحیح تاریخ کاعلم ہی نہیں ہے ۔ 1919تک جنگ آزادی کی پوری تحریک مسلمانوں کی مرہون منت ہے ،1919میں جلیاں والاباغ کے سانحہ سے برادران وطن نے آزادی کی اس تحریک میں ملنااورشامل ہوناشروع ہوئے ہیں اس سے پہلے کی پوری تاریخ میں اگرکوئی قوم نظرآتی ہے تووہ مسلمان ہیں۔ اب سیاست کے بازارمیں کچھ ایسی ذہنیت کے لوگ داخل ہوگئے ہیں جومنصوبہ بندی کے ساتھ نہ صرف ہندوستانی تاریخ کومسخ کررہے ہیں بلکہ جوشیلے اوربھڑکاؤبیانات سے بہت جلدسستی شہرت حاصل کرلیناچاہتے ہیں۔ ساکشی مہاراج کے بیان کو تنگ نظری اور ملک کیلئے نقصان دہ ہے۔ مدارس کو بلاوجہ نشانہ بنا کر وہ ملک کے امن وسکون کو برباد کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور ساتھ ساتھ اپنی جہالت او رہندوستان کی جنگ آزادی کی تاریخ سے ناواقفیت کابھی اعتراف کررہے ہیں۔ ساکشی مہاراج کومعلوم ہوناچاہئے کہ ہندوستان کی آزادی کے بعد اس ملک کی جاسوسی کرنے والے کون لوگ ہیں؟ان کے نام او ران کے مذہب کیا ہیں؟ مدارس نے کبھی شرپسند ،غدار یا ملک او رامن وسکون کے دشمن پیدا نہیں کئے ۔ مدارس کی اس ملک کیلئے سب سے بڑی خدمات یہی ہیں۔ ساکشی مہاراج کے بیان کو اس ملک کیلئے بدبختانہ اور ملک کو تقسیم کرنے والا ہے۔ ساکشی مہاراج نے اپنی پارٹی کے ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے یہ نفرت انگیز بیان دیا ہے۔ بیان کا مقصد عوام کو مذہبی بنیاد پر تقسیم کرنا اور ملک کے امن وسکون او راتحاد کو پارہ پارہ کرنا ہے ، اس طرح کے بیانات پرتوجہ دینی کی ضرورت نہیں ہے۔مرکزی حکومت کوچاہئے کہ اس طرح کے شرپسندوں اور فرقہ وارانہ خطوط پر ملک کو تقسیم کرنے والے بیانات کاسختی سے نوٹس لے۔
 ساکشی مہاراج کو اگر یہ علم ہوتا کہ قرآن وحدیث کے پیغامات اور اسلامی تعلیمات بلاتفریق مذہب وملّت پوری انسانیت کیلئے ہیں تو وہ کبھی اس طرح کااحمقانہ بیان نہ دیتے۔ عصری او رمذہبی اداروں میں سیلبس ہوتے ہیںجس کے تحت وہاں تعلیم پانے والے طلباء کو تعلیم دی جاتی ہے مدارس کے تعلیمی نظام کو دہشت گردی سے جوڑنا ساکشی مہاراج کی جہالت ، ناسمجھی کے ساتھ معاشرے کو مذہب کی بنیاد پرتقسیم کرنے کی ناپاک سیاست ہے ۔ فرقہ پرست لیڈران مدارس کی سنہری تاریخ سے واقف نہیں ہیں اسی لئے وہ اس طرح کے غیر ضروری اورجھوٹ برمبنی بیانات دے کر ملک کی جمہوریت اور سالمیت کو نقصان پہنچانے کی سازش کررہے ہیں ۔ حکومت ساکشی مہاراج، یوگی آدتیہ ناتھ اور پروین توگڑیا جیسے ملک کے امن وامان کے لئے خطرہ فرقہ پرست لیڈران پر سخت کارروائی کرے ۔ ہندوستان کی تعمیروترقی اورہندوستان کے اتحادوسالمیت کے لئے مسلمانوں نے کل بھی اپنی جانیں نثارکی تھیں اورآنے والے کل بھی اگرصحیح معنوں میں کوئی قوم اپنی جانوں کانذرانہ دے سکتی ہے تووہ مسلمان ہے،اس لئے حکومت کوچاہئے کہ ایسے مفادپرستوں کولگام دے جوملک کے امن وامان کوختم کرکے انارکی اورانتشارپیداکررہے ہیں۔
جس وقت سے مرکزی میں بی جے پی حکومت قائم ہوئی اسی وقت سے ملک میں فرقہ پرستی عروج پر پہنچ گئی ہے ،جس سے یہ صاف ظاہر ہوتاہے کہ یہ حکومت جمہوری پالیسیوں پر نہیں بلکہ آر ایس ایس کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ ساکشی مہاراج اور یوگی آدتیہ ناتھ جیسے ملک اور سماج کے انتہائی ناسور ہے جن پر قدغن لگانے کے لئے فوری طورپر حکومت عملی پیش رفت کرے۔ ملک میں باہمی اتفاق و اتحاد اور بھائی چارگی کے قیام کے لئے ضروری ہے ایسے فرقہ پر لیڈران سخت کارروائی کی جائے ۔
آج پوری دنیا میں دہشت،بدامنی،خوفزدگی،بے ایمانی اوربے قراری کی جوفضابنی ہوئی ہے،ہرچہارجانب،ہرگوشے اور خطہ سے عوام الناس کی چیخ وپکاراور آہ وبکا کی جوصدائیںآرہی ہیںاس کی وجہ صرف اورصرف دہشت گردی،ظلم وبربریت ہے اوراس ظلم وبربریت اوردہشت گردی کی وجہ سے ہرشریف النفس،اخلاق وکردارکے علمبردار،شریف گھرانے کے لوگ چاہے مردہوں یاعورتیں،بچےّ ہوں یاجوان سب کی نیندیں حرام ہوگئیں ہیں۔آخر کیوں؟اور حکومت ہنداس اہم معاملے میںایکشن لے نے کے بجائے کھراٹے کی نیندسورہی ہے۔
پوری دنیامشرق ومغرب،شمال وجنوب میںجہاں کہیں بھی ظلم وبربریت،دہشت گردی کے اقعات رو نماہوتے ہیں،کہیں پربم پھٹتا ہے چاہے مسجد ہویا مندر،مدارس ہوں یاگردوارے،ٹرین ہویا کوئی اورجگہ بم پھٹتاہے ،کہیں پرہماری ماؤں ،بہنوں کی عزت سے کھلواڑکیاجاتاہے کہیں پر گولیاں چلتی ہیں توکہیں پرقتل وغارت گری ہوتی ہے کسی جگہ پرچاہے سڑک ہوں یاکسی اورمقام معصوم اوربے گناہوں انسانوں کا اغواکیاجاتاہے ،کہیں پرٹرینوں کوجلایاجاتاہے،اورمسافر،طلباء مدارس ہویاکالج کا،تبلغی جماعت اورٹرینوں کے مسافروں کوہمیشہ ہمیش کیلئے موت کی نیندسلادیاجاتاہے تواس کا سہرابے کسی خوف وخطرکے ڈائریکٹ مسلمانوں کے سرجاتاہے ۔حالانکہ معاملہ اس کا برعکس ہوتاہے ۔
ذراسوچوغوروفکرکروکہ ہمارے پیچھے کیسی کیسی منظم سازشیں کی جارہی ہیں کہ پوری دنیاکے الکٹرانک میڈیا،پرنٹ میڈیااوردیگر ٹی وی چینلوں میں مسلمان ہی دہشت گردی اوردیگرواقعات جورونماہوتے ہیں جوکسی بھی عوام الناس سے مخفی وپوشیدہ نہیں ہے اسلام اورمسلمان ہی ان جرائم کے مجرم اوران واردات کے ذمہ دارقراردیئے جاتے ہیں حالانکہ اسلام اورمسلمان ان سب واقعات سے پاک وصاف ہیں ۔اوراس معاملے میں دیگراقوام عالم صلح پسنداورامن وامان ،سکون وچین کی علم بردار،اورحقوق انسان کے پاسبان کہے جاتے ہیں ۔صرف قوم مسلم دہشت گرد اورانتہاپسند ہے اسی کے سرزمین میں قتل وغارت گری کا لیبل ہے ۔لیکن حالات نے ان سب واقعات جومسلمانوں کے سرجاتاتھابالآخرسوامی اسیمانند نے اسلام کے تہذیب وتمدن ،امن وشانتی ،بھائی چارگی،اخوت ومحبت میں مسلمانوں کودہشت گردی کے بذریعہ کلیم الدین برخلاف دیکھ کر حقیقت کا پردہ فاش کیاکہ ہندکے ان حملوں کے مجرم ہم اورآایس ایس اس کے ذیلی تنظیمیں ہیں مثلاً بجرنگ دل،وشوہندوپریشد،شیوسیناوغیرہ وغیرہ ہیں۔
اورذراان کے سیاسی نظریہ پرورق گردانی کرتے چلئے کہ اس طرح کے دوسرے خیالات ونظریات اخباری صفحات کے زینت بنتے ہیں ،موٹی موٹی سرخیاں قائم کی جاتی ہیں،ریڈیو،اورٹی وی چینلوں پردھماکہ خیز خبریںنشرکئے جاتے ہیں،گفتگو،انٹرویو،مضامین ،افسانے،ناولیں ،حتی کہ فلمیں اورڈرامے سب میں مسلمانوں کودہشت گردی کوموضوع بنایااوراجاگرکیاجاتاہے اورپوری دنیاکے ارض وسماخصوصاً ہندوستان میں اسلام سے بدظن اورمسلمانوں سے بدگمانی کیاجارہاہے۔اسلئے آج پوری دنیامیں اسلامی ملک کہلانے والے عوام لیڈران،علماء مسلکوں کے آڑمیں الجھتے جارہے ہیں حالانکہ عالمی پیمانے پریہ باتیں نہیں ہونی چاہیے جس بناپرمسلمان اوراسلامی ممالک یااسی دیگرممالک جس میں ہندو،مسلم ،سکھ،عیسائی ،کرسچن اوردیگرمذہب کے ماننے والے ملک جیسے ہندوستان ،پاکستان ،بنگلہ دیش،امریکہ وغیرہ وغیرہ کے باشندہ مسلم قوم مسلک کی بناپرمسلمان کمزورہوتے جارہے ہیں حالانکہ اس وقت مسلمانوں کو مسلک ومذہب پرنہ جاتے ہوئے اپنے آ پ سیاسی طاقت بنناہوگااورہمیں اپنامحاسبہ کرناہوگا۔لہذادورجدیدکی یہ کفریہ سازشیں اورموجودہ زمانے کے یہ حالات ہم مسلمانوں کیلئے کھلاچیلنج ہے اس لئے اگرہمیں عزت کی زندگی ،عبادت گاہوں سے پیاراورمکاتب ومساجدکی فکرہے اوراگرہمیں دہشت گردی کا لیبل ظلم وبربریت کوختم کرناہے اوراپنی ماؤں ،بہنوں کی عزت وعصمت کا پاس ولحاظ رکھناہے توآؤقومیت وطنیت اوربغض وعداوت کی زنجیریں توڑکرایک وحدت ملی کے جذب ہوکربقاء وارتقاء کی جنگ لڑپھرجاکرہمیں کامیابی ملے گی۔
راشدالاسلام مظاہری(ارریہ)
سب ایڈیٹرروزنامہ عزیزالہند۔نوئیڈا
9810863428




ساکشی مہاراج جیسے لیڈران سے چندسوال

راشدالاسلام مظاہری(ارریہ)
سب ایڈیٹرروزنامہ عزیزالہند۔نوئیڈا
ہندوستان کی آزادی کی پہلی تحریک دینی مدارس سے اٹھی ہے اوریہ بات کسی سے مخفی نہیں۔ گزشتہ دنوں شاکشی مہاراج نے اپنے بھڑکائوبھاشن میں دینی مدارس کودہشت گردی کے اڈے بتاتے ہوئے ملک کی سب سے بڑی اقلیت کونشانہ بنایاتھا۔ بی جے پی کے ممبر آف پارلیمنٹ ساکشی مہاراج کے ذریعہ مدارس اسلامیہ کے خلاف زہر افشانی کئے جانے پر عام مسلمانوں سمیت علماء میںتا حال شدید غم وغصہ پایا جارہاہے۔ مدارس اسلامیہ میں ہمیشہ حب الوطنی کا درس دیا جاتاہے یہی وجہ ہے کہ جنگ آزادی میں مدارس نے اہم رول ادا کیا تھا اور اسی چیز سے گھبرا کر انگریزوں نے صرف دہلی کے اندر ایک ہزار سے زائد مدرسوںکو منہدم کیا تھا لیکن پھر بھی ان مدارس والوں کا حوصلہ نہیں توڑ سکے تھے اور آخرکار انگریزوں کو یہاں سے بھاگنا پڑاتھا۔لیکن یہ جان کر بڑا افسوس ہوتا ہے کہ آج بھی انگریز جیسی ذہنیت کے لوگ ہندوستان میں موجود ہیں اور مدارس کو بدنام کرنے کی سازش کر رہے ہیں۔ بعض فرقہ پرست لوگ ہندوستان میں بدامنی پھیلانا چاہتے ہیں ہندو مسلم اتحاد کو پارہ پارہ کرنا چاہتے ہیں اسی لئے پہلے لوجہاد اور اب مدارس کے خلاف بیان دے کر اپنی گندی ذہنیت کا اظہار کر رہے ہیں ۔
بہرکیف ساکشی مہاراج جیسے فرقہ پرست لیڈران سے چندسوالات پیش خدمت ہیں اوروہ یہ ہے کہ مہاتماگاندھی کوقتل کرنا،1984میں سکھوں کادہلی کے سڑکوں پراورپنجاب میںقتل کیاجانا ، 1963ء میں گجرات کی زمین پر قرآنی نسخوں کو بے حرمتی کرنا،1964ء میں سات مرتبہ فساد پھیلاکر وہاں کے مسلمانوں کے زندگی سے کھلواڑواجارکرنا ،1979ء میں جمشید پوری مسلمانوں کے سولہ پختہ مکانوں کو نذرآتش کرنا ،1980ء میں مرادآباد کی عیدگاہوں میں نہتے مسلم نوجوانوں کے خون سے ہولی کھیلنا،1985ء اور1986ء میں علی گڑھ کی ماؤں اوربہنوں کی عصمتوں کوتارتار کرنا ،1987ء میں ملیانہ کے مسلم گھرانوں کے خونوں سے ہولی اوررنگ ریلیاں منانا ،1989ء میں بھاگلپوری بھائی اوربہنوں کا قتل عام ،1992ء میں بے لگام کارسیکوں کے ذریعے مسلمانوں کی عظمت کی نشان چارسو سالہ پرانی بابری مسجد کوشہید کردیاگیا ، قرآن کریم کونذرآتش اوراس کے خلاف احتجاج کرنے پر کانپوری مسلمانوں کو گولیوں سے بھون ڈالنا،اورمارچ 2002ء میں ہزاروں گجراتی ماؤں اور بہنوں کواپنی ہوش کا نشانہ بناکرموت کے گھاٹ اتاردینا،اوریہ تمام بلیک کارنامے آر ایس ایس ،بے جے پی کے تربیت یافتہ کارکنان اورفرقہ پرست لیڈران کے سیاہ کارنامے ہیں۔اسی طرح حیدرآباد کے مکہ مسجد میں بم بلاسٹ 2005میں مالیگاؤں میں بم باری کرنا ،اوراجمیر شریف کے درگاہ پر بم بلاسٹ میں مدارس کے تربیت یافتہ ہیں ۔نہیں ہرگزنہیں ،ہرگزنہیں بلکہ آرایس ایس اوراس کے ذیلی تنظیموں کے ذمہ داران اوراس کے کارندے ہیں۔مسلمانوں کی بدقسمتی کہئے کہ یہ سازشی تحریک مسلسل ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور47ملکوں میں تقریباً اس کی ذیلی تنظمیں مختلف ناموں سے سرگرم ہیں خود ہندوستان میں ان کے بہت سارے تنظیمیں قائم ودائم ہیں جس میں بجرنگ دل ،وشوہندوپریشد ،شیوسینا اوربی جے پی کونمایا مقام حاصل ہے۔
آج اس ملک کوپوری دنیامیں جوعزت اورنیک نامی ملی ہوئی ہے وہ بھی دینی مدارس کی وجہ سے ہے،ہندوستان کے ایک ارب سے زائدلوگ امن وچین کاجوسانس لے رہے ہیں وہ بھی دینی مدارس کی وجہ سے ہے۔سچائی یہ ہے کہ یہ دینی مدارس اورعلماء نہ ہوتے توہندوستان کوآزادی نہ ملتی ،یہ ایک ایسی سچائی ہے جس کوہرعقل منداورصاحب بصیرت بحوبی جانتاہے۔شاکشی مہاراج جیسے لیڈران کوکیامعلوم کہ مسلمانوں نے اس ملک کوآزادی دلانے میں کیاکرداراداکیاہے،انھیں توہندوستان کی صحیح تاریخ کاعلم ہی نہیں ہے ۔ 1919تک جنگ آزادی کی پوری تحریک مسلمانوں کی مرہون منت ہے ،1919میں جلیاں والاباغ کے سانحہ سے برادران وطن نے آزادی کی اس تحریک میں ملنااورشامل ہوناشروع ہوئے ہیں اس سے پہلے کی پوری تاریخ میں اگرکوئی قوم نظرآتی ہے تووہ مسلمان ہیں۔ اب سیاست کے بازارمیں کچھ ایسی ذہنیت کے لوگ داخل ہوگئے ہیں جومنصوبہ بندی کے ساتھ نہ صرف ہندوستانی تاریخ کومسخ کررہے ہیں بلکہ جوشیلے اوربھڑکاؤبیانات سے بہت جلدسستی شہرت حاصل کرلیناچاہتے ہیں۔ ساکشی مہاراج کے بیان کو تنگ نظری اور ملک کیلئے نقصان دہ ہے۔ مدارس کو بلاوجہ نشانہ بنا کر وہ ملک کے امن وسکون کو برباد کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور ساتھ ساتھ اپنی جہالت او رہندوستان کی جنگ آزادی کی تاریخ سے ناواقفیت کابھی اعتراف کررہے ہیں۔ ساکشی مہاراج کومعلوم ہوناچاہئے کہ ہندوستان کی آزادی کے بعد اس ملک کی جاسوسی کرنے والے کون لوگ ہیں؟ان کے نام او ران کے مذہب کیا ہیں؟ مدارس نے کبھی شرپسند ،غدار یا ملک او رامن وسکون کے دشمن پیدا نہیں کئے ۔ مدارس کی اس ملک کیلئے سب سے بڑی خدمات یہی ہیں۔ ساکشی مہاراج کے بیان کو اس ملک کیلئے بدبختانہ اور ملک کو تقسیم کرنے والا ہے۔ ساکشی مہاراج نے اپنی پارٹی کے ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے یہ نفرت انگیز بیان دیا ہے۔ بیان کا مقصد عوام کو مذہبی بنیاد پر تقسیم کرنا اور ملک کے امن وسکون او راتحاد کو پارہ پارہ کرنا ہے ، اس طرح کے بیانات پرتوجہ دینی کی ضرورت نہیں ہے۔مرکزی حکومت کوچاہئے کہ اس طرح کے شرپسندوں اور فرقہ وارانہ خطوط پر ملک کو تقسیم کرنے والے بیانات کاسختی سے نوٹس لے۔
ساکشی مہاراج کو اگر یہ علم ہوتا کہ قرآن وحدیث کے پیغامات اور اسلامی تعلیمات بلاتفریق مذہب وملّت پوری انسانیت کیلئے ہیں تو وہ کبھی اس طرح کااحمقانہ بیان نہ دیتے۔ عصری او رمذہبی اداروں میں سیلبس ہوتے ہیںجس کے تحت وہاں تعلیم پانے والے طلباء کو تعلیم دی جاتی ہے مدارس کے تعلیمی نظام کو دہشت گردی سے جوڑنا ساکشی مہاراج کی جہالت ، ناسمجھی کے ساتھ معاشرے کو مذہب کی بنیاد پرتقسیم کرنے کی ناپاک سیاست ہے ۔ فرقہ پرست لیڈران مدارس کی سنہری تاریخ سے واقف نہیں ہیں اسی لئے وہ اس طرح کے غیر ضروری اورجھوٹ برمبنی بیانات دے کر ملک کی جمہوریت اور سالمیت کو نقصان پہنچانے کی سازش کررہے ہیں ۔ حکومت ساکشی مہاراج، یوگی آدتیہ ناتھ اور پروین توگڑیا جیسے ملک کے امن وامان کے لئے خطرہ فرقہ پرست لیڈران پر سخت کارروائی کرے ۔ ہندوستان کی تعمیروترقی اورہندوستان کے اتحادوسالمیت کے لئے مسلمانوں نے کل بھی اپنی جانیں نثارکی تھیں اورآنے والے کل بھی اگرصحیح معنوں میں کوئی قوم اپنی جانوں کانذرانہ دے سکتی ہے تووہ مسلمان ہے،اس لئے حکومت کوچاہئے کہ ایسے مفادپرستوں کولگام دے جوملک کے امن وامان کوختم کرکے انارکی اورانتشارپیداکررہے ہیں۔
جس وقت سے مرکزی میں بی جے پی حکومت قائم ہوئی اسی وقت سے ملک میں فرقہ پرستی عروج پر پہنچ گئی ہے ،جس سے یہ صاف ظاہر ہوتاہے کہ یہ حکومت جمہوری پالیسیوں پر نہیں بلکہ آر ایس ایس کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ ساکشی مہاراج اور یوگی آدتیہ ناتھ جیسے ملک اور سماج کے انتہائی ناسور ہے جن پر قدغن لگانے کے لئے فوری طورپر حکومت عملی پیش رفت کرے۔ ملک میں باہمی اتفاق و اتحاد اور بھائی چارگی کے قیام کے لئے ضروری ہے ایسے فرقہ پر لیڈران سخت کارروائی کی جائے ۔
آج پوری دنیا میں دہشت،بدامنی،خوفزدگی،بے ایمانی اوربے قراری کی جوفضابنی ہوئی ہے،ہرچہارجانب،ہرگوشے اور خطہ سے عوام الناس کی چیخ وپکاراور آہ وبکا کی جوصدائیںآرہی ہیںاس کی وجہ صرف اورصرف دہشت گردی،ظلم وبربریت ہے اوراس ظلم وبربریت اوردہشت گردی کی وجہ سے ہرشریف النفس،اخلاق وکردارکے علمبردار،شریف گھرانے کے لوگ چاہے مردہوں یاعورتیں،بچےّ ہوں یاجوان سب کی نیندیں حرام ہوگئیں ہیں۔آخر کیوں؟اور حکومت ہنداس اہم معاملے میںایکشن لے نے کے بجائے کھراٹے کی نیندسورہی ہے۔
پوری دنیامشرق ومغرب،شمال وجنوب میںجہاں کہیں بھی ظلم وبربریت،دہشت گردی کے اقعات رو نماہوتے ہیں،کہیں پربم پھٹتا ہے چاہے مسجد ہویا مندر،مدارس ہوں یاگردوارے،ٹرین ہویا کوئی اورجگہ بم پھٹتاہے ،کہیں پرہماری ماؤں ،بہنوں کی عزت سے کھلواڑکیاجاتاہے کہیں پر گولیاں چلتی ہیں توکہیں پرقتل وغارت گری ہوتی ہے کسی جگہ پرچاہے سڑک ہوں یاکسی اورمقام معصوم اوربے گناہوں انسانوں کا اغواکیاجاتاہے ،کہیں پرٹرینوں کوجلایاجاتاہے،اورمسافر،طلباء مدارس ہویاکالج کا،تبلغی جماعت اورٹرینوں کے مسافروں کوہمیشہ ہمیش کیلئے موت کی نیندسلادیاجاتاہے تواس کا سہرابے کسی خوف وخطرکے ڈائریکٹ مسلمانوں کے سرجاتاہے ۔حالانکہ معاملہ اس کا برعکس ہوتاہے ۔
ذراسوچوغوروفکرکروکہ ہمارے پیچھے کیسی کیسی منظم سازشیں کی جارہی ہیں کہ پوری دنیاکے الکٹرانک میڈیا،پرنٹ میڈیااوردیگر ٹی وی چینلوں میں مسلمان ہی دہشت گردی اوردیگرواقعات جورونماہوتے ہیں جوکسی بھی عوام الناس سے مخفی وپوشیدہ نہیں ہے اسلام اورمسلمان ہی ان جرائم کے مجرم اوران واردات کے ذمہ دارقراردیئے جاتے ہیں حالانکہ اسلام اورمسلمان ان سب واقعات سے پاک وصاف ہیں ۔اوراس معاملے میں دیگراقوام عالم صلح پسنداورامن وامان ،سکون وچین کی علم بردار،اورحقوق انسان کے پاسبان کہے جاتے ہیں ۔صرف قوم مسلم دہشت گرد اورانتہاپسند ہے اسی کے سرزمین میں قتل وغارت گری کا لیبل ہے ۔لیکن حالات نے ان سب واقعات جومسلمانوں کے سرجاتاتھابالآخرسوامی اسیمانند نے اسلام کے تہذیب وتمدن ،امن وشانتی ،بھائی چارگی،اخوت ومحبت میں مسلمانوں کودہشت گردی کے بذریعہ کلیم الدین برخلاف دیکھ کر حقیقت کا پردہ فاش کیاکہ ہندکے ان حملوں کے مجرم ہم اورآایس ایس اس کے ذیلی تنظیمیں ہیں مثلاً بجرنگ دل،وشوہندوپریشد،شیوسیناوغیرہ وغیرہ ہیں۔
اورذراان کے سیاسی نظریہ پرورق گردانی کرتے چلئے کہ اس طرح کے دوسرے خیالات ونظریات اخباری صفحات کے زینت بنتے ہیں ،موٹی موٹی سرخیاں قائم کی جاتی ہیں،ریڈیو،اورٹی وی چینلوں پردھماکہ خیز خبریںنشرکئے جاتے ہیں،گفتگو،انٹرویو،مضامین ،افسانے،ناولیں ،حتی کہ فلمیں اورڈرامے سب میں مسلمانوں کودہشت گردی کوموضوع بنایااوراجاگرکیاجاتاہے اورپوری دنیاکے ارض وسماخصوصاً ہندوستان میں اسلام سے بدظن اورمسلمانوں سے بدگمانی کیاجارہاہے۔اسلئے آج پوری دنیامیں اسلامی ملک کہلانے والے عوام لیڈران،علماء مسلکوں کے آڑمیں الجھتے جارہے ہیں حالانکہ عالمی پیمانے پریہ باتیں نہیں ہونی چاہیے جس بناپرمسلمان اوراسلامی ممالک یااسی دیگرممالک جس میں ہندو،مسلم ،سکھ،عیسائی ،کرسچن اوردیگرمذہب کے ماننے والے ملک جیسے ہندوستان ،پاکستان ،بنگلہ دیش،امریکہ وغیرہ وغیرہ کے باشندہ مسلم قوم مسلک کی بناپرمسلمان کمزورہوتے جارہے ہیں حالانکہ اس وقت مسلمانوں کو مسلک ومذہب پرنہ جاتے ہوئے اپنے آ پ سیاسی طاقت بنناہوگااورہمیں اپنامحاسبہ کرناہوگا۔لہذادورجدیدکی یہ کفریہ سازشیں اورموجودہ زمانے کے یہ حالات ہم مسلمانوں کیلئے کھلاچیلنج ہے اس لئے اگرہمیں عزت کی زندگی ،عبادت گاہوں سے پیاراورمکاتب ومساجدکی فکرہے اوراگرہمیں دہشت گردی کا لیبل ظلم وبربریت کوختم کرناہے اوراپنی ماؤں ،بہنوں کی عزت وعصمت کا پاس ولحاظ رکھناہے توآؤقومیت وطنیت اوربغض وعداوت کی زنجیریں توڑکرایک وحدت ملی کے جذب ہوکربقاء وارتقاء کی جنگ لڑپھرجاکرہمیں کامیابی ملے گی۔

راشدالاسلام مظاہری(ارریہ)
سب ایڈیٹرروزنامہ عزیزالہند۔نوئیڈا

9810863428

Saturday 13 September 2014

an article about flood Jammu and kashmir






an article about flood Jammu and kashmir






کیاسیلاب قیامت صغریٰ نہیں؟
راشدالاسلام مظاہری(ارریہ)
ان دنوں ریاست جموں وکشمیرمیں زبردست سیلاب ہے جن کی وجہ سے ہرجاندارمخلوق نفسانفسی اورپریشانی کے عالم میں ہے۔ اس صورت حال میں تمام طبقات کے لئے یہ سیلاب اوربھی زیادہ صبرآزماہوجاتاہے۔ خاص طورپرغرباء کیلئے اس موسم کی سختیوں کا سامنا کرنا بہت مشکل کام بن جاتاہے۔اسی کی وجہ سے جہاں علاقہ کے لوگ نے راحت کی سانس لی ہے ۔ اس طرح کے مستحسن قدم سرکاری امدادکے علاوہ دیگرملی وفلاحی تنظیموں کے ذمہ داران اس میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیناچاہئے۔جب اللہ کا قہر نازل ہوتاہے توکوئی طاقت پوری دنیا کی نہیں روک سکتی ہے اورایسا قہر کبھی کبھی نازل ہوتاہے اس کی وجہ ہے کہ بندہ امربالمعروف چھوڑتاہے اورنہی عن المنکرکواختیارکرتاہے اورجب انسان حدسے تجاوزکرتاہے تواللہ جل جلالہ اس پر قہر برپاکردیتاہے۔کشمیر میں سیلاب کی صورتحال پر بے حد تشویش ہے سیلاب نے کشمیر میں زبردست جانی مالی نقصان ہوا ہے۔ مرکزی حکومت کے اعداد وشمار کے مطابق تقریباً 4 لاکھ لوگ سیلاب میں پھنسے ہوئے ہیں،جن سے سبھی قسم کے رابطہ منقطع ہوچکے ہیںاور جموں وکشمیر میں خطرناک صورتحال پیدا ہوچکی ہے ،وہاں اس وقت پانی ،بجلی،دوائیں،رہائشی ٹینٹ ،غذائی اشیاء خاص طور پر بچوں کی غذائی ضروریات کی سخت ضرورت ہے۔ وہاں ضروریات زندگی کا سامان کسی جگہ دستیاب نہیں ہے اور اس وقت وہاں جنگی پیمانہ پر امداد کی ضرورت ہے ۔مزیدمرکزی حکومت کوچاہئے کہ وہ ہندوستان کی پرائیویٹ ائر لائنس کے مالکان کو سیلاب زدہ علاقوں میں امدادی سامان لے جانے کے لئے احکامات دیں ،کیونکہ سڑک کے ذریعہ وہاں تک پہنچنا ممکن نہیں ہے۔ واضح ہوکہ ذرائع ابلاغ او ر و سائل نقل وحمل کے منقطع ہو جانے کی وجہ سے جانی و مالی اتلاف کا صحیح اندازہ نہیں ہو رہا ہے۔ اگر حکومتیں قبل از وقت خود حفاظتی کے انتظامات کرتیں تو اس قدرجانی و مالی نقصانات سے باشندوں کو بچایا جاسکتا تھا۔ اس گھڑی میں تباہ حال لوگ ہماری ہر طرح کی امداد کے مستحق و محتاج ہیں ۔
دوستو اللہ کے قہرکا مثال اورتذکرہ ہزاروں کڑوروں سے زائدہیں مگرراقم الحروف حال ہی کے دو،تین کا مثال دیکر قلم بندکررہاہوں،سال 2008میں بہارکے ضلع سپول میں سیلاب نے گھنٹوں کاکام منٹوںمیں سیکڑوں ہزاروں گھروں کوتباہ ہوبربادکردیا،یعنی وہاں کے لوگوں کوگھرسے بے گھرکردیا،پتہ نہیں وہ لوگ کہاں کہاں جاکربسے ،سیکڑوںہزاروں لوگ پانی میں غرق ہوئے اورہزاروںافرادہلاک وبربادہوئے یہاں تک کہ کتنے لوگوں کی نعشیں بھی نہیں مل پائے اورکچے گھروں کی بات تودور،پکے مکانیں دودومنزلہ سہ منزل کوبھی سیلاب کی موجیں لہڑیں کاغذاورپتے کی طرح بہا لے گیا ،جس کا ابھی تک کوئی سراغ نہیں لگ پائے ہیں ۔
ایسا ہی2010میں جموں وکشمیرکے لداخ علاقے کے شہرلیہہ میں زبردست بارش وسیلاب سے ہونے والے جانی ومالی نقصان بہارکے ضلع سپول سے کم نہیں تھا یہاں بادل پھٹنے کے بعداچانک آئے سیلاب میں 120افرادسے زائدکی موت ہوگی اورتقریباً 500سے زائدافراد زخمی ہوگئے اورلیہہ سے تقریباً 13کلومیٹرکے فاصلے پرواقع چگلاسر میں تقریباً 200افرادبھی لاپتہ ہوگئے تھے،اسی وجہ سے ہندوستان کے تمام افراد غم زدہ تھے یہ نہایت ہی تکلیف دہ بات ہے۔
اب 2014 میںبہارکے ضلع سپول سیلاب کی طرح جموں وکشمیرمیں گھنٹوں کاکام منٹوںمیں سیکڑوں ہزاروں گھروں کوتباہ ہوبربادکردیا۔یعنی تقریباً ساٹھ سال بعد آنے والے قیامت صغریٰ خیز سیلاب نے ریاست جموں وکشمیر کو ہلاکر رکھ دیا ہے اوراس وقت ہندوستان کے علاوہ پوری دنیا کی نگاہیں ریاست جموں وکشمیر پر لگی ہوئی ہے ، تعاون کرنے والے اپنے اپنے اعتبار سے تعاون بھی کررہی ہیں اور جو کچھ نہیں کرسکتے وہ خدا سے دعائوں کے ذریعہ اس کا رحم طلب کررہے ہیں۔ ہندوستان کی ریاست جموں وکشمیر میں بھیانک بارش اور اس کے نتیجے میں آئے تباہ کن سیلاب، بھیانک طغیانی اور جان و مال کی ہلاکت وبربادی ملک کی سب سے بڑی آفت کہیں توغلط نہیں ہوگا یوں تو ملک کے مختلف حصوں میں سیلاب کی تباہ کاریوں کا درد باشندگان وطن سہہ رہے ہیں لیکن بھارت کا وہ خطہ ارض کشمیر جسے جنت کہاجاتاہے۔ سیلاب کی ہولناکیوں اور تباہ کاریوں سے پورے طور پرسسک رہا ہے اور آہو ں و بکاء سے دو چار ہیں۔حالات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے مرکزی وزیرِ داخلہ نے ایک طرح سے اپنا ہاتھ کھڑاکرتے ہوئے ریاستی سرکاروں،غیر سرکاری تنظیموں اور عوام الناس سے اپیل کی ہے کہ جس سے جیسے اور جو ہوسکے ان آفت زدہ متاثرین کی مدد کریں۔
بہرکیف خبروں کے مطابق وزیر اعظم نریندر مودی نے جموں و کشمیر میں آئے سیلاب سے متاثر لوگوں کی راحت اور بچاؤ اور بازآبادکاری کے لئے ریاستی حکومت کو ایک ہزار کروڑ روپے کی اضافی امداد دینے کا اعلان کیا ہے۔وزیر اعظم نریندر مودی نے جموں و کشمیر میں سیلاب سے پیدا شدہ صورت حال کا جائزہ لینے کے لئے جموں و کشمیر کادورہ کیااور انہوں نے متاثرہ افراد کا درد بانٹا ۔وزیر اعظم کو جموں میں اور سری نگر میں وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ اور ریاستی حکومت کے سینئر افسران نے سیلاب سے ہوئے نقصان سے واقف کرایا ۔ وزیر اعظم کو جموں و کشمیر میں سیلاب سے ہوئے نقصان کے بارے میں وزیر داخلہ نے آگاہ کیا تھا ۔ صورت حال کی شدت کے پیش نظر وزیر اعظم نے کابینہ سیکریٹری اور دیگر سینئر افسران کے ساتھ ایک میٹنگ کی ۔وزیر اعظم نے کہا ہے کہ یہ ایک قومی آفت ہے اورکہا کہ مرکزی حکومت ریاستی حکومت اور ریاست کے عوام کے ساتھ دکھ کی اس گھڑی میں شانہ بہ شانہ کھڑی ہے ۔وزیر اعظم نے محسوس کیا کہ ریاستی آفات ریلیف فنڈ کے ذریعہ مہیا کرائی گئی 1100 کروڑ روپئے کی رقم ناکافی ہوگی ، اس کے پیش نظر امداد اور بازآبادکاری کے لئے مرکزی حکومت کی جانب سے مزید ایک ہزار کروڑ روپئے کی رقم مہیا کرائی جائے گی ۔صورت حال کا معقول جائزہ لینے کے بعد ضرورت پڑنے پر مزید رقم جاری کرنے کے لئے وزیر اعظم نے یقین دلایا۔
الکٹرانک وپرنٹ میڈیا کے مطابق ہندوستانی فوج کے مسلح دستوں نے جموں کشمیر کے سیلاب متاثرہ علاقوں سے اب تک 66000لوگوں کو محفوظ مقامات پر پہنچانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ جبکہ راحت کاری اور بچاؤ مہم اب بھی جنگی پیمانے پر جاری ہے۔مسلح دستوں اور نیشنل ڈیزاسٹر رسپانس فورس(این ڈی ا ر ایف) نے وسیع پیمانے پر امدادی اور راحت رسانی مہم چلائی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی مزید کچھ ہیلی کاپٹر اور کشتیاں اس مہم میں لگائی گئی ہیں۔ جموں کشمیر میں اب تک کے سب سے بڑی راحت کاری اور بچاؤ مہم میں بری فوج کی 215ٹکڑیاں،ڈاکٹروں کی 80 ٹیمیں اور 15 انجینئرٹاسک ٹیموں کو کام پر لگایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ہوائی فوج کے 31 طیارے اور 30 ہیلی کاپٹر راحت اور بچاؤ کے کاموں میں مصروف ہیں جبکہ بحریہ کی 110 نیز این ڈی ا ر ایف کی 148کشتیاں اس مہم میں لگائی گئی ہیں۔سری نگر کے سیلاب متاثرہ علاقوں میں پھنسے لوگوں کو نکالنے کا کام بدستور جاری ہے ۔ سیلاب متاثرہ علاقوں میں تقریباً 50ہزار لیٹر پینے کا پانی ،600 ٹن بسکٹ، سات ٹن بچوں کا کھانہ اور کھانے کے 1000پیکٹ تقسیم کیے گئے ہیں۔ ساتھ ہی 7200کمبل اور 210 ٹینٹ سیلاب متاثرین کو بانٹے گئے ہیں۔ہندوستانی فضائیہ کے طیاروں اور ہیلی کاپٹروں نے اب تک 354پروازیں کی ہیں اور 459 ٹن خوراک کے سامان گرائے ہیں۔ فوج کی ہوابازی یونٹ نے ا ج 120اڑانیں بھری ہیں اور نازک طور سے زخمی 71لوگوں کو نکالا ہے۔دریں اثنا فوج کی شمالی کمان کے سربراہ نے سیلاب متاثرین سے ایک اپیل میں کہا ہے کہ فوج سیلاب میں پھنسے ہر شخص کو بحفاظت نکالنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ انھوں نے لوگوں سے صبروتحمل کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ اولیت کے اعتبار سے لوگوں کو نکالا جارہا ہے۔ بچوں، خواتین اور بزرگوں کو پہلے نکالا جارہا ہے لیکن فوج سیلاب میں پھنسے ہر شخص کو بحفاظت نکالنے کے لیے پرعزم ہے۔قابل ذکر ہے کہ بھارت سنچار نگم لمیٹیڈ (بی ایس این ایل) مسلح دستوں کے تعاون سے ریاست میں موبائل خدمات اور سیٹیلائٹ نیٹورک کو بحال کرنے میں مصروف ہے۔
جموں و کشمیر میں سیلاب کا قہر جاری ہے اور حالات میں کوئی بہتری نہیں ہے،اب تک 200سے زائدلوگوں کی موت ہو چکی ہے۔حالات کو دیکھتے ہوئے 12ستمبر تک تمام اسکولوں کی چھٹی کر دی گئی ہے اور بڑے پیمانے پر فوج پولیس اور این ڈی آر ایف راحتی مہم چلائے ہوئے ہے،راحت رسانی مہم میں فوج کے 10ہزار سے زیادہ جوان لگے ہوئے ہیں۔فضائیہ کے 29طیارے اور ہیلی کاپٹرس لوگوں کو محفوظ مقامات پر پہنچا رہے ہیں، ساتھ ہی امدادی سامان بھی پہنچا رہے ہیں،وزیر اعلی عمر عبد اللہ نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ گھبرائیں نہیں، خراب موسم کی وجہ سے لوگوں تک مدد پہنچنے میں دقت ہو رہی ہے، لیکن فوج، این ڈی آر ایف اور انتظامیہ پوری قوت سے اس میں مصروف عمل ہے۔جموں کشمیر کے کئی علاقے پانی سے مکمل طور پر بھرے ہوئے ہیں،جنوبی کشمیر اور سرینگر میں بھی حالات خراب ہیں،لال چوک سیکرٹریٹ اور ہائی کورٹ میں 6-6فٹ تک پانی بھرا ہوا ہے۔دہلی سے این ڈی آر ایف کی مزید کئی ٹیمیں اور 100کشتیاں بھیجی گئیں ہیں،جس سے امدادی مہم میں تیزی لائی جا سکے۔
لہذا ملک کے تمام باشندوں کو اپنے تباہ حال بھائیوں کی بھر پور امداد کرنی چاہئے اور ان کی راحت رسانی کے لیے حتی الوسع کوشش کرنی چاہئے ۔ یہ ہمارا دینی، ملی ، قومی اور انسانی فریضہ ہے۔ اس طرح کے افراداورتنظیموں کومصائب کے ان موقعوں پرآگے آناچاہئے اورمخلوق خداکی خدمت کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا چاہئے۔اسلئے تمام برادران کوچاہیے کہ اللہ کے احکام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق حکم بجالاوے اسی میں خیرہے اوراللہ ان بلاؤمصیبت سے حفاظت فرمائے آمین۔

راشدالاسلام مظاہری (ارریہ)
سب ایڈیٹرروزنامہ عزیزالہند،نوئیڈا(انڈیا)
9810863428
rashid110002@gmail.com